dast e haqeeqat se aankh malte haiN…


تمہارے خواب سے ہم دیر تک بہلتے ہیں
پھر اپنے دستِ حقیقت سے آنکھ ملتے ہیں

حدودِ دشتِ یقیں ہم کو دے رہی ہے صدا
 فصیلِ شہرِ گماں سے ہم اب نکلتے ہیں

سنا ہے عشق کا مے خانہ ہے وہ مے خانہ
جہاں پہ گرتے ہیں وہ بھی جو کچھ سمبھلتے ہیں

پرانی مے نئے کاسوں میں ڈالی جاتی ہے
خیال و فکر کہاں زاویے بدلتے ہیں 

پتا ملا کہ سخن شہر میں دکن کوچہ
ولی و تاج کے نقش قدم پہ چلتے ہیں

اے تاج دیکھ رہا ہوں تری نگارِ حیات
تمام رنگ نئے ہیں جو اس میں ڈھلتے ہیں

تمہارے ذکر سے روشن ہے بزمِ تنہائی
“تمہاری یاد کے دل میں چراغ جلتے ہیں”

ملی ہے ہم کو وراثت میں شاعری اسرار
خیال و فکر ہمارے اسی پہ پلتے ہیں